ਸਤਿਗੁਰੁ ਅਪਣਾ ਸੇਵਿ ਸਭ ਫਲ ਪਾਇਆ ॥ ਅੰਮ੍ਰਿਤ ਹਰਿ ਕਾ ਨਾਉ ਸਦਾ
ਧਿਆਇਆ ॥
ستِگُرُ اپنھا سیۄِ سبھ پھل پائِیا ॥
انّم٘رِت ہرِ کا ناءُ سدا دھِیائِیا ॥
ترجمہ:
مرشد کے کلام پر عمل کی برکت سے ہر طرح کی مرادیں برآور ہوئیں ۔ نام الہٰی آبحیات ہے، ہمیشہ اس میں دھیان لگائیا۔
ਸੰਤ ਜਨਾ ਕੈ ਸੰਗਿ ਦੁਖੁ ਮਿਟਾਇਆ ॥ ਨਾਨਕ ਭਏ ਅਚਿੰਤੁ ਹਰਿ ਧਨੁ ਨਿਹਚਲਾਇਆ ॥੨੦॥
سنّت جنا کےَ سنّگِ دُکھُ مِٹائِیا ॥
نانک بھۓ اچِنّتُ ہرِ دھنُ نِہچلائِیا ॥੨੦॥
لفظی معنی:
ارداس۔ گذارش ۔ اپائیا۔ پیدا کیا ۔ زندگی عنایت فرمائی ۔ ستگر۔ سچا مرشد۔ انمرت۔ آبحیات۔ روحانی زندگی عنایت کرنے والا پانی ۔ ہر کا ناؤ۔ الہٰی نام ۔ سچ و حقیقت ۔ سدا ۔ ہمیشہ ۔ دھیائیا ۔ توجہ کی ۔ دھیان دیا ۔ سنت ۔ خدا رسیدہ ۔ سنگ ۔ صحبت و قربت سے ۔ اچت ۔ بیفکر۔ نہچلائیا ۔ لافناہ ۔
ترجمہ:
خدا رسیدگان کی صحبت و قربت میں عذاب مٹائیا۔ اے نانک۔ لافناہ الہٰی نام کی دولت سے بیفکر ہوئے ۔
ਸਲੋਕ ਮਃ ੩ ॥ ਖੇਤਿ ਮਿਆਲਾ ਉਚੀਆ ਘਰੁ ਉਚਾ ਨਿਰਣਉ ॥ ਮਹਲ ਭਗਤੀ ਘਰਿ ਸਰੈ ਸਜਣ ਪਾਹੁਣਿਅਉ
॥
سلوک مਃ੩॥
کھیتِ مِیالا اُچیِیا گھرُ اُچا نِرنھءُ ॥
مہل بھگتیِ گھرِ سرےَ سجنھ پاہُنھِئءُ ॥
ترجمہ:
بادل کو دیکھ کر (جٹ) کھیت میں وٹین اونچی کردیتا ہے (اور بارش کا پانی آتا ہے اور اس میدان میں کھڑا ہوتا ہے) ۔ (اسی طرح انسان کے دل میں ، عقیدت کی (چھلانگ) آتی ہے ، وہاں رب مہمان بن کر آتا ہے (یعنی اس کے دل میں بسنے کے لیے آتا ہے) ۔
ਬਰਸਨਾ ਤ ਬਰਸੁ ਘਨਾ ਬਹੁੜਿ ਬਰਸਹਿ ਕਾਹਿ ॥ ਨਾਨਕ ਤਿਨ੍ਹ੍ਹ ਬਲਿਹਾਰਣੈ ਜਿਨ੍ਹ੍ਹ ਗੁਰਮੁਖਿ ਪਾਇਆ ਮਨ
ਮਾਹਿ ॥੧॥
برسنا ت برسُ گھنا بہُڑِ برسہِ کاہِ ॥
نانک تِن٘ہ٘ہ بلِہارنھےَ جِن٘ہ٘ہ گُرمُکھِ پائِیا من ماہِ ॥੧॥
لفظی معنی:
کھیت ۔ زمین۔ میالا۔ وٹاں۔ بنے ۔ نرنو۔ نرخ پہچان ۔ محل ۔ عورت۔ بھگتی ۔ پریم ۔ پیار ۔گھر سر کے ۔ دلمیں بستی ہے ۔ سجن پاہنیاؤ۔ تب دوست مہام ۔ برسنا تے برس گھنا۔ اگر بارش کرنی ے تو بھاری بارش کر ۔ بہوڑ۔ دوبارہ ۔ کاہے ۔ کس لئے ۔ بلہارنے ۔ قربان۔ گورمکھ پائا من ماہے ۔ جنہوں نے مرشد کی وساطت سے دل میں ہی پالیا ۔
ترجمہ:
اے خدا ، اگر تجھے میرے دل میں الہیٰ نام کی بارش کرنی ہے تو ابھی کر، باقی میری عمر گذر جانے کے بعد اس بارش کیا فائدہ ہوگا۔ اے نانک قربان ہوں ان پر جنہوں نے مرشد کی وساطت سے دل میں ہی خدا کو پالیا ہے ۔
ਮਃ ੩ ॥ ਮਿਠਾ ਸੋ ਜੋ ਭਾਵਦਾ ਸਜਣੁ ਸੋ ਜਿ ਰਾਸਿ ॥ ਨਾਨਕ ਗੁਰਮੁਖਿ ਜਾਣੀਐ ਜਾ ਕਉ ਆਪਿ
ਕਰੇ ਪਰਗਾਸੁ ॥੨॥
مਃ੩॥
مِٹھا سو جو بھاۄدا سجنھُ سو جِ راسِ ॥
نانک گُرمُکھِ جانھیِئےَ جا کءُ آپِ کرے پرگاسُ ॥੨॥
لفظی معنی:
سو۔ وہ ۔ بھاودا۔ جو چاہیے ۔ سجن ۔ دوست۔ راس۔ درست۔ موافق۔ جس سے آپس میں تضاد پیدا نہ ہو۔ گور مکھ ۔ مرید مرشد۔ جانیئے ۔ سمجھو ۔ پر گاس۔ روشن۔
ترجمہ:
اصل میٹھا وہی ہے جسے دل چاہے ۔ دوست وہی ہے جس سے میل میلاپ رہے۔ اے نانک مرید مرشد اسے سمجھو جسے خدا خود علم سے روشن اور نور سے منور کرتا ہے۔
ਪਉੜੀ ॥ ਪ੍ਰਭ ਪਾਸਿ ਜਨ ਕੀ ਅਰਦਾਸਿ ਤੂ ਸਚਾ ਸਾਂਈ ॥ ਤੂ ਰਖਵਾਲਾ ਸਦਾ ਸਦਾ ਹਉ
ਤੁਧੁ ਧਿਆਈ ॥
پئُڑیِ ॥
پ٘ربھ پاسِ جن کیِ ارداسِ توُ سچا ساںئیِ ॥
توُ رکھۄالا سدا سدا ہءُ تُدھُ دھِیائیِ ॥
ترجمہ:
خادم خدا کی خدا سے گذارش ہے عرض ہے کہ اے خدا تو صدیوی مالک ہے۔ تو ہمیشہ محافظ ہے ۔ میں تجھے ہمیشہ یاد کرتا ہوں۔
ਜੀਅ ਜੰਤ ਸਭਿ ਤੇਰਿਆ ਤੂ ਰਹਿਆ ਸਮਾਈ ॥ ਜੋ ਦਾਸ ਤੇਰੇ ਕੀ ਨਿੰਦਾ ਕਰੇ ਤਿਸੁ ਮਾਰਿ ਪਚਾਈ
॥ ਚਿੰਤਾ ਛਡਿ ਅਚਿੰਤੁ ਰਹੁ ਨਾਨਕ ਲਗਿ ਪਾਈ ॥੨੧॥
جیِء جنّت سبھِ تیرِیا توُ رہِیا سمائیِ ॥
جو داس تیرے کیِ نِنّدا کرے تِسُ مارِ پچائیِ ॥
چِنّتا چھڈِ اچِنّتُ رہُ نانک لگِ پائیِ ॥੨੧॥
لفظی معنی:
جن ۔ خادم ارداس۔ عرض ۔ گذارش۔ سچا سائیں۔ سچا ملاک۔ رکھوالا۔ محافظ۔ دھیائی ۔ دھیان دینا۔ سمائی ۔ سنبھالنا۔ بسنا۔ چنتا ۔ فکر ۔ تشویش۔ اچنت ۔ بیفکر۔
ترجمہ:
ساری قائنات کے جاندار تیری ملکیت ہیں تو ان میں بستا ہے۔ جو تیرے خادم و عابدوں کی بد گوئی کرتے ہیں ان کو تو روحانی طور پر ختم کر دیتا ہے ۔ اور ذلیل و خوار کرتا ہے ۔ اے نانک خدا کو یاد کرنے سے فکر چھوڑ کر بیفکر ہو گیا ہوں۔
ਸਲੋਕ ਮਃ ੩ ॥ ਆਸਾ ਕਰਤਾ ਜਗੁ ਮੁਆ ਆਸਾ ਮਰੈ
ਨ ਜਾਇ ॥ ਨਾਨਕ ਆਸਾ ਪੂਰੀਆ ਸਚੇ ਸਿਉ ਚਿਤੁ ਲਾਇ ॥੧॥
سلوک مਃ੩॥
آسا کرتا جگُ مُیا آسا مرےَ ن جاءِ ॥
نانک آسا پوُریِیا سچے سِءُ چِتُ لاءِ ॥੧॥
لفظی معنی:
آسا۔ اُمید ۔ خواہش۔ چت ۔ دل ۔
ترجمہ:
انسان خواہشات میں گرفتار آخر فوت ہوجاتا ہے ۔ مگر اس کی خواہشات ختم نہیں ہوتیں۔ اے نانک۔ خدا سے پریم پیار کرنے سے خواہشات پوری ہوتی ہے مراد خواہشات کی بھوک ختم ہوجاتی ہے۔
ਮਃ ੩ ॥ ਆਸਾ ਮਨਸਾ ਮਰਿ ਜਾਇਸੀ ਜਿਨਿ
ਕੀਤੀ ਸੋ ਲੈ ਜਾਇ ॥ ਨਾਨਕ ਨਿਹਚਲੁ ਕੋ ਨਹੀ ਬਾਝਹੁ ਹਰਿ ਕੈ ਨਾਇ ॥੨॥
مਃ੩॥
آسا منسا مرِ جائِسیِ جِنِ کیِتیِ سو لےَ جاءِ ॥
نانک نِہچلُ کو نہیِ باجھہُ ہرِ کےَ ناءِ ॥੨॥
لفظی معنی:
آسا ۔ منسا۔ امیدیں او رارادے ۔ مر جالئی ۔ ختم ہو جائینگی ۔ جن کسی ۔ جس نے پیدا کی ہیں۔ سو لیجائے ۔ وہی ختم کر دیگا ۔ نہچل ۔ لافناہ۔ باجہو ۔ بغیر ۔ہر کے نائے ۔ الہٰی نام۔ سچ اور حقیقت کے ۔
ترجمہ:
امیدیں اور ارادے تب ختم ہونگے ۔ جب جس نے پیدا کیئے ہیں وہ ختم کر دیگا۔ اے نانک الہٰی نام کے علاوہ دنیا میں صدیوی رہنے والا کچھ نہیں۔
ਪਉੜੀ ॥ ਆਪੇ ਜਗਤੁ ਉਪਾਇਓਨੁ
ਕਰਿ ਪੂਰਾ ਥਾਟੁ ॥ ਆਪੇ ਸਾਹੁ ਆਪੇ ਵਣਜਾਰਾ ਆਪੇ ਹੀ ਹਰਿ ਹਾਟੁ ॥
پئُڑیِ ॥
آپے جگتُ اُپائِئونُ کرِ پوُرا تھاٹُ ॥
آپے ساہُ آپے ۄنھجارا آپے ہیِ ہرِ ہاٹُ ॥
ترجمہ:
خدا نے ایک منصوبہ تیار کرکے خود یہ جہان پیدا کیا۔ خدا خود ہی شاہو کار خود ہی سودا گر اور خود ہی دکان بھی ہے ۔
ਆਪੇ ਸਾਗਰੁ ਆਪੇ ਬੋਹਿਥਾ ਆਪੇ ਹੀ
ਖੇਵਾਟੁ ॥ ਆਪੇ ਗੁਰੁ ਚੇਲਾ ਹੈ ਆਪੇ ਆਪੇ ਦਸੇ ਘਾਟੁ ॥ ਜਨ ਨਾਨਕ ਨਾਮੁ ਧਿਆਇ ਤੂ ਸਭਿ ਕਿਲਵਿਖ ਕਾਟੁ
॥੨੨॥੧॥ ਸੁਧੁ
آپے ساگرُ آپے بوہِتھا آپے ہیِ کھیۄاٹُ ॥
آپے گُرُ چیلا ہےَ آپے آپے دسے گھاٹُ ॥
جن نانک نامُ دھِیاءِ توُ سبھِ کِلۄِکھ کاٹُ ॥੨੨॥੧॥ سُدھُ
لفظی معنی:
سدھ ۔ جگت۔ عالم ۔ جہان ۔ دنیا۔ اپائن۔ پیدا کی ۔ کر پورا تھاٹ ۔ مکمل ساز و سامان۔ ساہو ۔ شوہکار ۔ ونجارا۔ سوداگر۔ حاٹ۔ دکان ۔ ساگر۔ سمندر۔ بوہتھا۔ جہاز۔ کھواٹ۔ ملاح۔ گرو ۔ مرشد۔ چیلہ ۔ مرید ۔گھاٹ۔ بندر گاہ ۔ کل وکھ ۔ گناہ ۔ دوش۔ پاپ۔
ترجمہ:
خداخودہی سمندر، خو دہی جہاز، خو دہی ملاح، خود ہی مرشد اور خود ہی مرید اور خودہی زندگی کا مقصد بتانے والا ہے۔
اے خادم نانک ۔ الہٰی نام میں اپنی توجہ مبذول کر تیرے تمام گناہ مٹ جائینگے ۔
راگ گوجری وار محلہ 5 ( وار کا مقصد ( پوڑی وار )
- خدا نے عالم پیدا کرکے اس میں ہر جگہ خود موجود ہے ۔ سب کی خو دہی پرورش کرتا ہے سب کو روزی اور رزق دیتا اور پہنچاتا ہے اور تمام جاندار اپنے نظام میں منظم کئے ہوئے ہیں۔ اس کی رضا کی مطابق ہی کوئی جاندار دنیا کی بدکاریوں میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں جن پر اس کی نظر عنایت و رحمت ہوتی ہے وہ الہٰی یاد وریاض سے اس دنیاوی سمندر کی مدو جز سے بچ جاتے ہیں۔
- ولی اللہ فرشتے اور تمام جاندار خدا کی حمدوثناہ کرتے ہیں خدا تانے پیٹے کی مانند سب میں بستا ہے ۔ جدھر جس کا ر میں لگاتا ہے ۔ ادھر جاندار لگتے ہیں جن پر خدا خود مہربان ہوتا ہے وہی الہٰی عبادت بندگی یادوریاج اور حمدوثناہ کرتے ہیں۔
- انسان کی اپنی انائی ہوشمندی کام نہیں آتی انسان ہمیشہ نیک کاموں میں غفلت کرتا ہے ۔ جس پر الہٰی رحمت و عنایت ہوتی ہے ۔ جہاں اسے مریدان مرشد پاکدامن ، پار ساؤں کی صحبت و قربت حاصل ہوتی ہے ۔ جہاں وہ خدمت والہٰی حمدوثناہ کرتا ہے ۔
- جو خدا سب کے دلوں کا راز دان ہے اور سب کے راز و نیاز سے واقف ہے جو پل بھر میں قدر ت کے بیشمار تبدیلیاں لانے کی قوت کا مالک ہے جو رحمان
- الرحیم ہے جو انسان کو اپنی یادوریاض میں لگاتا ہے اور برائیوں سے بچاتا ہے ۔ وہ اسے دل مین بساتے ہیں۔ وہ انسان برائیون میں زندگی کے کھیل میں شکست نہیں کھاتے ۔
- دنیا مین بہت سی جنسی ذہنی و جسمای بد کاریاں اور برائیاں ہیں جو انسنا کو ہر وقت اپنی گرفت میں رکتھی ہیں کسی قسم کے خوف اور فکروں میں انسان ملبوس رہتا ہے ۔ مگر جو سچے مرشد کے سبق پر عمل کرتا ہے اور سبق لیتا ہے الہٰی یاد وریاض اور عبادت الہٰی سے برائیوں اور ان کے خوف سے بچ جاتا ہے کیونکہ وہ صابر پاکدامن زندگی بسر کرنے وال اہوجاتا ہے ۔ مگر ایسا انسان وہی ہوتا ہے جس پر خدا کی نظر عنایت ہو وہی مرید مرشد ہوتا ہے ۔
- جو انسان اپنی خودی چھوڑ کر مرید مرشد ہوجاتا ہے اس کی بد عقلی برے خیالات ختم ہوجاتے ہیں وہ دنیاوی برائیوں میں نہیں پڑتا ۔ جس سے اس کے عاقبت سدھر جاتی ہے ۔ اور سچ اور حقیقت کی برکت سے انسان صابر ہوجاتا ہے ۔ مگر مرید مرشد وہی ہوتا ہے جس پر الہٰی رحمت و شخصیت ہوتی ہے ۔
- مرشد الہٰی بندگی و حمدوچناہ کا خزانہ ہے جو رحمت خدا سے ملتا ہے ۔ جس پر سچے مرشد کی نظر عنایت و شفقت ہوتی ہے ۔ اس کی تگ و دو و بھٹکن ختم ہوجاتی ہے کیونکہ اسے الہٰی محبت اسے دنیا کے تمام خزانوں سے قیمتی دکھائی دینے لگتا ہے ۔
- جو انسان سبق مرشد پر عمل کرتا ہے اسے الہٰی علم حاصل ہوجاتا ہے اور وہ جیسے حمدوثناہ کرتا ہے اس کے تمام روحانی بد عتیں ختم ہوجاتی ہے او ر روح ٹھنڈک اور سکون محسوس کرنے لگتی ہے اور خودی مٹا کر اس کی زندگی کی تمام رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں۔
- صحبت و قربت پاکدامنوں سے روح پاک ہوجاتی اور من کی غلاظت ختم ہو جاتی ہے اور دل میں الہٰی حمدوثناہ کے لئے جو ش و خروش پیدا ہوتا ہے اور برائیوں اور برے کامون سے پرہیز پیدا ہوتا ہے اور انسان پرہیز گار بن جاتا ہے پرہیز گاری صحبت و قربت پاکدامنوں سے حاسل ہوتی ہے ۔
- مرشد کے ملاپ سے اسے ہر جا خدا بستا دکھائی دینے لگتا ہے برائیوں سے پرہیز ہونے لگتا ہے بری خواہشات ختم کر لیتاہے عذابوں سے بچتا ہے خدا کا منظور نظر ہوجاتا ہے برائیوں کی طرف راغب نہیں ہوتا۔
- سارے عالم کا نظام خدا کے ہاتھ میں ہے اور الہٰی نام یعنی سچ و حقیقت کا خزانہ بھی اس کے بس میں ہے ۔ جس پرا س کی نگاہ شفقت ہوتی ہے ۔ اسے ہی الہٰی نام کی نعمت سے نوازتا ہے اور وہی الہٰی نام سچ و حقیقت عمل کرتا اور زیر کار لاتا ہے ۔
- یہ الہٰی رضا ہے بعض بدیوں میں مشغول ہیں اور بعض نیکیوں میں اس میں اسنان کی اپنی کوشش و دانائی اور چالاکی کار گر نہیں ہو سکتی ۔ جو خدا کو اپنا سہارا بناتے ہیں خدا اسے اپنی رحمت سے الہٰی نام سچ و حقیقت کے اصول سے نوازاتا ہے ۔
- الہٰی رحمت سے جو یاد خدا کو کرتے ہیں اس کے دیاوی جھنجھٹ ختم ہوجاتے ہیں وہ صابر ہوجاتا ہے ۔
- رحمت خدا سے جو الہٰی نام کی ریاض جو کرتے ہیں سچ حقیقت نام خدا کا زندگی کا سہار ابن جاتا ہے ۔ آ ب حیات نام سےد ل ان کا سیر ہوجاتا ہے عذاب کے تاثرات سے نجات وہ پا لیتے ہیں۔
- احساسات بد جو بھاری قوت کے مالک ہیں۔ سادہ لوح انسان تو کیا طارق دلدنیاوں پر بھی اپنا تاثر ڈالنے سے نہیں چوکتے اپنے زیر اثر کر لیتے ہیں۔ دنیاوی دولت کے لئے تگ و دور ان کے ایک قلعہ اور گہری ہے ان کے چاروں طرف ان سے بچنے کا واحد طریقہ ہے سچے مرشد کا سایہ ۔
- وہم وگمان کے قلعے میں محسور انسان کو سچا مرشد ہی نجات دلا سکتا ہے مرشد انسان کو الہٰی نام سچ و حقیقت کا خزانہ عنایت کرتا ہے ۔ نام یعنی سچ اور حقیقت ایک ایسی کیمیا دوئای ہے جس سے غضباک بیماریاں ختم ہوجاتی ہیں۔
- جس کے دل میں خدا بس جاتا ہے وہ خوشباش رہتا ہے ۔ اسے برائی کا خطرہ نہیں رہتا کیونکہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے الہٰی رضا میں ہو رہاہے اور خد ا عابد و ریاض کار کو خود اپنے ہاتھ سے بچاتا ہے ۔
- جنہیں خدا پانے نام سچ و حقیقت سے نوازتا ے ۔ ان کا تناسخ ختم ہوجاتا ہے ۔ اور وہ ایسا کام نہیں کرتا جس کے لئے بعد میں پچھتانا پڑے ۔
- جس کے دل میں بستا ہے خدا اس کی زندگی آسان ہوجاتی ہے ۔
- جو انسان خدائی خدمتگار ہوجاتا ہے وہ برائیوں سے بچ جاتا ہے اور خدا اسے اپنا لیتا ہے ۔ مگر جو ایسے انسانوں کی بد گوئی اور برائی کرتے ہیں وہ کینہ اور حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔
- الہٰی یاد سے انسان مفکر ہو ہوجاتا ہے اور انسانی روح یا نور نور الہٰی میں مدغم ہوجاتا ہے انسان سنجیدہ مستقل مزاج خوشباش اور یکسو ہو جاتا ہے ۔
(خلاصہ ) مقصد
- پوڑی نمبر (1 تا 4) خاص انسانوں سے لیرک سارے جاندار اس طرح طرح کے عالم میں کار ساز کرتار نے تمام مخلوق اپنے نظام میں مسلک کئے ہوئے ہیں اور وہ خدا سب میں مضمر ہے اور سب کے دلوں کا راز دان ہے یہ اس کی رضا ہے ۔ کہ کوئی بدیون میں ذلیل و خوارہو رہے ہیں۔ انسانی ہوشنمدنی اور چالاکی اسے بچا نہیں سکتی ۔ جس انسان پر اس کی رحمت و عنایت ہوتی ہے ۔ اسے اپنی عبادت و ریاضت و ریاد میں لگاتا ہے ۔
- پوڑی ( نمبر 5 تا 10 ) جس انسان پر خدا کی نگاہ شفقت و عنایت ہوتی ہے اس خوش قسمت کو سچے مرشد کی صحبت و قربت نصیب ہوتی ہے ۔ مرشد کے پاس الہٰی حمدوچناہ کا خزانہ ہے مرشد کی صحبت و قربت سے اس کے برے خیالات نیکیوں میں بدل جاتے ہیں۔ الہٰی عشق اسے دنیا کے تمام خزانوں سے پیار ا لگتا ہے الہٰی یاد سے اس کا دل سکون محسوس کرنے لگتا ہے ۔ا نسان صابر ہوجاتا ہے اس طرح سے الہٰی نظروں میں مقبول ہوکر برائیوں سے بچتا ہے ۔
- پوڑی (11 تا 16) سارے عالم کا نظام خدا کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ بدیوں اور برائیوں میں انسان کا جلن بھی الہٰی رضا سے ہے ۔ کوئی داشمندی اس میں حائل نہیں ہو سکتی بد احساسات اتنے طاقتور ہیں کہ طارق الدنیا بھی اس کے زیر اور زر میں آجائے ہیں ان سے صرف ایک بچاؤ ہے ۔ الہٰی رحمت وعنایت سے سچے مرشد کی صحبت و قربت سے الہٰی نام سچ و حقیقت کا اپنانا جو ایک ایسی کیمیا دوائی ہے ۔ جس سے ہر روحانی بیماری کا مریض شفا پاتا ہے ۔
- پوڑی (17 تا 21) الہٰی نام سچ و حقیقت اپنانے سے روح تسکین پاتی ہے من کھلا رہتا ہے زندگی آرام و آسائش میں گذرتی ہے ۔ احساسات بد اثر انداز نہیں ہوتے ۔ حقیقت پرستی سے انسان کو الہٰی یکسوئی حاصل ہوتی ہے ۔
اصل مدعا ۔
یہ سارا عالم خداوند کریم کا خود پیدا کردہ ہے ۔ برائیوں کا وجود اور برائیان بھی اس کی رضا سے ہیں اوریہ بد احساسات اتنے طاقتور ہیں کہ انسان اپنی عقل ہوشمندی اور دانائی سے بچ نہیں سکتا اس سے صرف الہٰی رحمت نظر عنایت و شفقت ہی بچا سکتی ہے ۔ جس انسان پر خدا رحمت کرتا ہے اسے مرشد کی صحبت و قربت عنایت کرتا ہے لہذا الہٰی نام سچ و حقیقت کی برکت سے بدیاں اس پر اثر انداز نہیں ہو پاتیں جس سےا نسان زندگی آسان اور آرام و آسائش میں گذارتی ہے اور انسان اور خدا آپس میں یکسو ہوجاتے ہیں۔
وار کی بناوٹ:
یہ وار گرو ارجن دیو صاحب کی تحریر کردہ ہے اس میں (21) پوڑیاں ہیں ہر پوڑی کے ساتھ د و سلوک ہیں اور سلوں وں کا شمار 42 ہے اور سارے سلوک گرو ارجن دیو صاحب جے کے ہیں۔ ہر ایک پوڑی آٹھ فقروں پر مشتمل ہے ۔ صرف پوڑی نمبر 20 پانچ فقر ے پہین پہلی اور بیسویں پوڑی کو چھوڑ کر باقی تمام پوڑیوں کے ساتھ سلوک دو دو فقروں والے ہیں دوجی پوڑی کا پہلا سلکو چار فقروں وال اہے ان سینتیس سلوکوں میں مغریب پنجابی زبان کے الفاظ زیادہ ہیں تمام سلوک ایک جیسے ہیں اور سلوک او ر پوڑیاں واحد مرشد کی تحرری اور خیالات کی ترجمانی کرتی ہیں ان باتوں سے قدرتی طور پر اندازہ ہو سکتا ہے کہ وار اور سلوک ایک ہی وقت بیان کئےہوئے ہیں آسا کی وار میں یہ بات نہیں۔
ਰਾਗੁ ਗੂਜਰੀ ਵਾਰ ਮਹਲਾ ੫ ੴ ਸਤਿਗੁਰ ਪ੍ਰਸਾਦਿ ॥
ਸਲੋਕੁ ਮਃ ੫ ॥ ਅੰਤਰਿ ਗੁਰੁ ਆਰਾਧਣਾ ਜਿਹਵਾ ਜਪਿ ਗੁਰ ਨਾਉ ॥ ਨੇਤ੍ਰੀ ਸਤਿਗੁਰੁ ਪੇਖਣਾ ਸ੍ਰਵਣੀ ਸੁਨਣਾ
ਗੁਰ ਨਾਉ ॥
راگُ گوُجریِ ۄار مہلا ੫
ੴ ستِگُر پ٘رسادِ ॥
سلوکُ مਃ੫॥
انّترِ گُرُ آرادھنھا جِہۄا جپِ گُر ناءُ ॥
نیت٘ریِ ستِگُرُ پیکھنھا س٘رۄنھیِ سُننھا گُر ناءُ ॥
ترجمہ:
دل میں مرشد یاد ہو اور زبان پر ہو مرشد کا نام، آنکھوں سے ہو دیدار مرشد اور کانوں سے نام مرشد سننا۔
ਸਤਿਗੁਰ ਸੇਤੀ ਰਤਿਆ ਦਰਗਹ ਪਾਈਐ ਠਾਉ ॥ ਕਹੁ ਨਾਨਕ ਕਿਰਪਾ ਕਰੇ ਜਿਸ ਨੋ ਏਹ ਵਥੁ ਦੇਇ
॥ ਜਗ ਮਹਿ ਉਤਮ ਕਾਢੀਅਹਿ ਵਿਰਲੇ ਕੇਈ ਕੇਇ ॥੧॥
ستِگُر سیتیِ رتِیا درگہ پائیِئےَ ٹھاءُ ॥
کہُ نانک کِرپا کرے جِس نو ایہ ۄتھُ دےءِ ॥
جگ مہِ اُتم کاڈھیِئہِ ۄِرلے کیئیِ کےءِ ॥੧॥
لفظی معنی:
انتر۔ دل میں۔ اردھنا۔ یاد کرنا۔ جیو ۔ زبان سے ۔ نیتری ۔ آنکھوں سے ۔ پیکھنا۔ سرونی ۔ کانوں سے ۔ رتیا۔ پیار کرنے سے ۔ درگیہہ۔ بارگاہ الہٰی۔ ٹھاؤ۔ ٹھکانہ ۔ جگہ ۔ دھ ۔ نعمت۔ اتم ۔ بلند رتبہ ۔ کا ڈھیئے ۔ کہاتے ہیں۔
ترجمہ:
اس طرحس سے سچے مرشد سے پیو سطہ ہوکر بارگاہ خدا ٹھکانہ میں ملتا ہے ۔اے نانک بتادے ۔خدا ایسے آثار و حالات اس انسان کو عنایت کرتا ہے ۔ جس پر اس کی نظر عنایت و شفقت ہوتی ہے۔ ایسے انسان دنیا میں بلند عطمت و حشمت ہوتے ہیں مگر ایسے انسان دنیا میں کوئی کوئی ہی ہوتے ہیں۔
ਮਃ ੫ ॥ ਰਖੇ ਰਖਣਹਾਰਿ ਆਪਿ ਉਬਾਰਿਅਨੁ ॥ ਗੁਰ ਕੀ
ਪੈਰੀ ਪਾਇ ਕਾਜ ਸਵਾਰਿਅਨੁ ॥
مਃ੫॥
رکھے رکھنھہارِ آپِ اُبارِئنُ ॥
گُر کیِ پیَریِ پاءِ کاج سۄارِئنُ ॥
ترجمہ:
محافظ خدا نے حفاظت کرکے خود بدیوں سے بچائیا ۔ مرشد کی زیرسایہ لاکر میں سارے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
ਹੋਆ ਆਪਿ ਦਇਆਲੁ ਮਨਹੁ ਨ ਵਿਸਾਰਿਅਨੁ ॥ ਸਾਧ ਜਨਾ ਕੈ ਸੰਗਿ ਭਵਜਲੁ
ਤਾਰਿਅਨੁ ॥
ہویا آپِ دئِیالُ منہُ ن ۄِسارِئنُ ॥
سادھ جنا کےَ سنّگِ بھۄجلُ تارِئنُ ॥
ترجمہ:
جن پر خدا مہربان ہوا انہیں دل سے بھلاتا نہیں۔ انہیں پاکدامنوں کی صحبت و قربت عنایت کرکے زندگی کے اس خوفناک سمندر کے عبور کرا کے زندگی کامیاب بنائی ۔
ਸਾਕਤ ਨਿੰਦਕ ਦੁਸਟ ਖਿਨ ਮਾਹਿ ਬਿਦਾਰਿਅਨੁ ॥ ਤਿਸੁ ਸਾਹਿਬ ਕੀ ਟੇਕ ਨਾਨਕ ਮਨੈ ਮਾਹਿ ॥
ساکت نِنّدک دُسٹ کھِن ماہِ بِدارِئنُ ॥
تِسُ ساہِب کیِ ٹیک نانک منےَ ماہِ ॥
ترجمہ:
مادہ پرست، بدگوئی کرنے والے، گناہگار کو پل بھر میں ختم کیا ۔میرے دل میں اس مالک آقا کا سہارا ہے۔