ਮਨ ਕਾਮਨਾ ਤੀਰਥ ਜਾਇ ਬਸਿਓ ਸਿਰਿ ਕਰਵਤ ਧਰਾਏ
॥ ਮਨ ਕੀ ਮੈਲੁ ਨ ਉਤਰੈ ਇਹ ਬਿਧਿ ਜੇ ਲਖ ਜਤਨ ਕਰਾਏ ॥੩॥
من کامنا تیِرتھ جاءِ بسِئو سِرِ کرۄت دھراۓ ॥
من کیِ میَلُ ن اُترےَ اِہ بِدھِ جے لکھ جتن کراۓ ॥੩॥
لفظی معنی:
کامنا۔ خواہش ۔کروت دھرائے ۔ آرا۔ من کی میل۔ دل کی ناپاکیزگی ۔ جتن ۔کوشش (3)
ترجمہ: وہ زیارت کے مقدس مقامات پر جانے اور رہنے کی خواہش کر سکتا ہے ، اور یہاں تک کہ اپنا سر قربانی کے لیے پیش کر سکتا ہے۔
لیکن یہ اس کے ذہن کی برائیوں کو دور نہیں کرے گا ، اگرچہ وہ ہزاروں کوششیں کرے۔ || 3 ||
ਕਨਿਕ ਕਾਮਿਨੀ ਹੈਵਰ ਗੈਵਰ ਬਹੁ ਬਿਧਿ ਦਾਨੁ
ਦਾਤਾਰਾ ॥ ਅੰਨ ਬਸਤ੍ਰ ਭੂਮਿ ਬਹੁ ਅਰਪੇ ਨਹ ਮਿਲੀਐ ਹਰਿ ਦੁਆਰਾ ॥੪॥
کنِک کامِنیِ ہیَۄر گیَۄر بہُ بِدھِ دانُ داتارا ॥
انّن بست٘ر بھوُمِ بہُ ارپے نہ مِلیِئےَ ہرِ دُیارا ॥੪॥
لفظی معنی:
کنک۔ سونا۔ کامنی ۔عورت ۔ چتور۔ گیور۔ گھوڑے اورہاتھی ۔ بہو بدھ دان داتار۔ بہت سے طریقوں سے قسمکی خیرات دینے والے ان اناج بستر کپٹ ۔بھوم۔زمین ۔ ارے ۔ خیرات د ے ۔
ترجمہ:
وہ ہر قسم کا تحفہ دے سکتا ہے – سونا ، عورتیں ، گھوڑے اور ہاتھی۔
وہ خوراک ، کپڑے اور زمین کی کثرت سے نذرانے دے سکتا ہے ، لیکن یہ بھی اسے خدا کی موجودگی کی طرف نہیں لے جائے گا۔ || 4 ||
ਪੂਜਾ ਅਰਚਾ ਬੰਦਨ ਡੰਡਉਤ ਖਟੁ
ਕਰਮਾ ਰਤੁ ਰਹਤਾ ॥ ਹਉ ਹਉ ਕਰਤ ਬੰਧਨ ਮਹਿ ਪਰਿਆ ਨਹ ਮਿਲੀਐ ਇਹ ਜੁਗਤਾ ॥੫॥
پوُجا ارچا بنّدن ڈنّڈئُت کھٹُ کرما رتُ رہتا ॥
ہءُ ہءُ کرت بنّدھن مہِ پرِیا نہ مِلیِئےَ اِہ جُگتا ॥੫॥
ترجمہ:
وہ عبادت اور تعظیم کے لیے سرشار رہ سکتا ہے ، فرش پر ماتھا جھکا سکتا ہے ، چھ مذہبی رسومات پر عمل کر سکتا ہے ،
انا میں مبتلا رہ کر وہ مایا کے بندھن میں پڑ جاتا ہے اور ان طریقوں سے خدا کا ادراک نہیں کرتا۔ || 5 ||
ਜੋਗ ਸਿਧ ਆਸਣ
ਚਉਰਾਸੀਹ ਏ ਭੀ ਕਰਿ ਕਰਿ ਰਹਿਆ ॥ ਵਡੀ ਆਰਜਾ ਫਿਰਿ ਫਿਰਿ ਜਨਮੈ ਹਰਿ ਸਿਉ ਸੰਗੁ ਨ ਗਹਿਆ ॥੬॥
جوگ سِدھ آسنھ چئُراسیِہاے بھیِ کرِ کرِ رہِیا ॥
ۄڈیِ آرجا پھِرِ پھِرِ جنمےَ ہرِ سِءُ سنّگُ ن گہِیا ॥੬॥
لفظی معنی:
پوجا۔ پرستش۔ ارچا۔ خوشبوئیں۔ چھڑکنا۔ بندن۔ سجدہ کرنا ۔کھٹ۔ ہندؤں کے چھ فرائض ادا کرنے ۔ رت۔ محو (5 جوگ سدھ آسن چراسی۔ جوگیونکے چوراسی یوگ کے طریقے ۔ وڈی آرجا۔ لمبی عمر (6)
ترجمہ:
وہ یوگا کی تمام چوراسی کرنسیوں پر عمل کرتا ہے اور سدھوں کی مافوق الفطرت طاقتوں کو حاصل کرتا ہے۔ لیکن وہ ان رسومات پر عمل کرکے بھی تھک جاتا ہے۔
ان طریقوں سے اُسکی زندگی طویل ہو سکتی ہے ، لیکن پھر بھی وہ بار بار پیدا ہوتا ہے ، اور کبھی بھی خدا کی موجودگی کا تجربہ نہیں کرتا ہے۔ || 6 ||
ਰਾਜ ਲੀਲਾ ਰਾਜਨ ਕੀ ਰਚਨਾ ਕਰਿਆ ਹੁਕਮੁ ਅਫਾਰਾ ॥ ਸੇਜ ਸੋਹਨੀ ਚੰਦਨੁ ਚੋਆ ਨਰਕ ਘੋਰ ਕਾ ਦੁਆਰਾ
॥੭॥
راج لیِلا راجن کیِ رچنا کرِیا ہُکمُ اپھارا ॥
سیج سوہنیِ چنّدنُ چویا نرک گھور کا دُیارا ॥੭॥
ترجمہ:
وہ شاہی لذتوں سے لطف اندوز ہوسکتا ہے ، اور شاہی شادمانی اور تقریب ، اور غیر مشکل احکامات
جاری کرسکتا ہے۔
وہ چندن کے تیل سے خوشبو دار خوبصورت بستروں پر لیٹ سکتا ہے۔ لیکن یہ اسے صرف خوفناک مصائب کی طرف لے جائے گا۔ || 7 |
ਹਰਿ ਕੀਰਤਿ ਸਾਧਸੰਗਤਿ ਹੈ ਸਿਰਿ ਕਰਮਨ ਕੈ ਕਰਮਾ ॥ ਕਹੁ ਨਾਨਕ ਤਿਸੁ ਭਇਓ ਪਰਾਪਤਿ ਜਿਸੁ
ਪੁਰਬ ਲਿਖੇ ਕਾ ਲਹਨਾ ॥੮॥
ہرِ کیِرتِ سادھسنّگتِ ہےَ سِرِ کرمن کےَ کرما ॥
کہُ نانک تِسُ بھئِئو پراپتِ جِسُ پُرب لِکھے کا لہنا ॥੮॥
لفظی معنی:
راج لیلا۔ حکموتی عشق و آرام ۔ اپھار۔ غرور بھرے فرمان۔ سیچ سوہنی ۔ خوبصورت ۔ خوابگا۔ چوآ۔ عطر۔ نرک۔ دوزخ ۔ گھو۔ خوفناک ۔ کیرت۔ حمدوثناہ ۔کرمن کے سر۔ پہلے درجے کے اعمال ۔ سادھ سنگت۔ خدا رسیدہ ۔ پاکدامنوں کی صحبت و قربت ۔ پرب لکھے کہنا۔ پہلے کئے ہوئے اعمال اسکے اعمالنامے میں تحریر ہیں اسے ملتے ہیں (8)
ترجمہ:
مقدس جماعت میں خدا کی حمد گانا ، تمام اعمال میں سب سے عمدہ عمل ہے۔
نانک کا کہنا ہے کہ ، اسے صرف یہ موقع ملتا ہے جو اس کے لیے پہلے سے مقرر ہے۔ || 8 ||
ਤੇਰੋ ਸੇਵਕੁ ਇਹ ਰੰਗਿ ਮਾਤਾ ॥ ਭਇਓ ਕ੍ਰਿਪਾਲੁ ਦੀਨ ਦੁਖ ਭੰਜਨੁ ਹਰਿ ਹਰਿ
ਕੀਰਤਨਿ ਇਹੁ ਮਨੁ ਰਾਤਾ ॥ ਰਹਾਉ ਦੂਜਾ ॥੧॥੩॥
تیرو سیۄکُ اِہ رنّگِ ماتا ॥
بھئِئو ک٘رِپالُ دیِن دُکھ بھنّجنُ ہرِ ہرِ کیِرتنِ اِہُ منُ راتا ॥ رہاءُ دوُجا ॥੧॥੩॥
لفظی معنی:
رنگ۔ پریم پیار۔ دین دکھ بھنجن ۔ بے سہارا کے عذآب مٹانے والا۔ بھیؤ کرپال۔ مہربانہوا۔ ماتا۔ مست۔ مدہوش۔ راتا۔ محو۔رہاؤ۔
ترجمہ:
اے میرے خدا ، تیرا یہ عقیدت مند تیری محبت سے لبریز ہے۔
بے بسوں کے دکھوں کو ختم کرنے والا مجھ پر مہربان ہو گیا ہے ، اور میرا ذہن اس کی تعریفوں سے لبریز ہے۔ || دوسرا توقف || 1 || 3 ||
ਰਾਗੁ ਸੋਰਠਿ ਵਾਰ ਮਹਲੇ ੪ ਕੀ ੴ ਸਤਿਗੁਰ ਪ੍ਰਸਾਦਿ ॥
ਸਲੋਕੁ ਮਃ ੧ ॥ ਸੋਰਠਿ ਸਦਾ ਸੁਹਾਵਣੀ ਜੇ ਸਚਾ ਮਨਿ ਹੋਇ ॥ ਦੰਦੀ ਮੈਲੁ ਨ ਕਤੁ ਮਨਿ ਜੀਭੈ ਸਚਾ ਸੋਇ ॥
راگُ سورٹھِ ۄار مہلے ੪ کیِ
ੴ ستِگُر پ٘رسادِ ॥
سلوکُ مਃ੧॥
سورٹھِ سدا سُہاۄنھیِ جے سچا منِ ہوءِ ॥
دنّدیِ میَلُ ن کتُ منِ جیِبھےَ سچا سوءِ ॥
ترجمہ:
سورتھ راگ ہمیشہ خوبصورت ہوتا ہے ، اگر یہ روح دلہن کو اس کے ذہن میں ابدی خدا کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے ،
اس کی غیبت کی عادت ختم ہو جاتی ہے ، اس کا دماغ دشمنی سے پاک ہو جاتا ہے اور اس کی زبان ہمیشہ خدا کی حمد گاتی ہے۔
ਸਸੁਰੈ ਪੇਈਐ ਭੈ ਵਸੀ ਸਤਿਗੁਰੁ ਸੇਵਿ ਨਿਸੰਗ ॥ ਪਰਹਰਿ ਕਪੜੁ ਜੇ ਪਿਰ ਮਿਲੈ ਖੁਸੀ ਰਾਵੈ ਪਿਰੁ ਸੰਗਿ ॥
سسُرےَ پیئیِئےَ بھےَ ۄسیِ ستِگُرُ سیۄِ نِسنّگ ॥
پرہرِ کپڑُ جے پِر مِلےَ کھُسیِ راۄےَ پِرُ سنّگِ ॥
ترجمہ:
یہاں اور آخرت میں ، وہ خدا کے قابل احترام خوف میں رہتی ہے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سچے گرو کی تعلیمات پر عمل کرتی ہے ،
دنیاوی نمائش کو چھوڑ کر ، جب اسے اپنے شوہر خدا کا احساس ہوتا ہے ، تو وہ خوشی سے اس کی صحبت سے لطف اندوز ہوتی ہے۔
ਸਦਾ
ਸੀਗਾਰੀ ਨਾਉ ਮਨਿ ਕਦੇ ਨ ਮੈਲੁ ਪਤੰਗੁ ॥ ਦੇਵਰ ਜੇਠ ਮੁਏ ਦੁਖਿ ਸਸੂ ਕਾ ਡਰੁ ਕਿਸੁ ॥
سدا سیِگاریِ ناءُ منِ کدے ن میَلُ پتنّگُ ॥
دیۄر جیٹھ مُۓ دُکھِ سسوُ کا ڈرُ کِسُ ॥
ترجمہ:
روح دلہن ، جس کا ذہن نام سے مزین ہے ، کبھی بھی برائیوں کی گندگی سے آلودہ نہیں ہوتا۔
اس کی ہوس اور دیگر برائیاں ختم ہو جاتی ہیں اور اب وہ مایا ، دنیاوی دولت اور طاقت سے نہیں ڈرتی؟
ਜੇ ਪਿਰ ਭਾਵੈ ਨਾਨਕਾ
ਕਰਮ ਮਣੀ ਸਭੁ ਸਚੁ ॥੧॥
جے پِر بھاۄےَ نانکا کرم منھیِ سبھُ سچُ ॥੧॥
ترجمہ:
اے نانک اگر ایسی روح دلہن اپنے شوہر خدا کو پسند کرتی ہے تو اسے بہت خوش قسمت سمجھیں۔ وہ ہر جگہ ابدی خدا کا تجربہ کرتی ہے۔ || 1۔
دار کا مدعا ومقصد کیا ہے ۔
پوڑی دار ۔ خدا نے اس دنیا ایک کھیل ہےاور ہر جگہ اسکی اپنی زندگی کی لہر جاری ہے ۔ مگر یہ سمجھ مرشد کے وسیلے سے آتی ہے مرشد کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہی اسکی صفت صلاھ ہو سکتی ہے۔
- خواہ دنیاوی دولت سے مبرا خدا کی زندگی کی لہر ہر جگہ ہے ۔ مگر انسان نادانی کی وجہس ے اس کی محب تمیں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ جس پر خدا مہربان ہوتا ہے ۔ وہ مرشد کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر الہٰی حمدوثناہ کرتا ہ ۔
- خدا کی کوئی ایسی شکل و صورت نہیں نہ ہی اسکی کوئی نشانی ہے جس سے سمجھ آسکے ۔ کامل مرشد کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہی دیدار حاصل ہو سکتا ہے ۔
- خواہ خدا ہر دلمیں بستا ہے اور یہ دنیا اسی کی ہی پیدا کی ہوئی ہے ۔ مگر انسان دنیاوی دولت کے کاموں میں مشغول ہوکر خدا کو بھلا بیٹھتا ہے ۔ مگراہ ہو جاتا ہے جس پر خدا مہربان ہوتا ہے دوہ نیاوی دولتکے جنگل سے آزاد ہوکر مرشد سے ملاپ کرتا ہے
- جس دنیاوی دولتکی عیش و عشرت میں محو ہورک خدا کو بھلا دیتا ہے اور گناہ کرتا ہے اسکا مزہ چند دنوں کے لئے ہوتا ہے اور بوقت موت و آخرت پچھتاتا ہے ۔
- مگر جس کے دل میں خدا کی یاد رہتی ہے برائیوں سے بچتا ہے ۔ موت کا خؤف نیہں رہتا گمراہی سے بچتا ہے بھٹکن نیہں رہتی مگر اس راستے پر وہی چلتا ہے جسے مرشد کی رہنمائی حاصل ہ ۔
- بلند قسمت انسان ہی مرشدکے زیر اثر اور زیر سایہ آتے ہیں۔ صحبت و قربت پاکدامناںمیں الہٰی حمدوثناہ کرتے ہیں مراد وہ برائیوںکی بجائے الہٰی نام سچ و حقیقت میں یقین رکھتے ہیں ۔ ایسے سچے ساتھیوں کا دیدار ک ہی متبر ہے جو خدا سے رشتے استوار کراتے ہین۔
- جو انسان الہٰی نام میں محو ومجذوب رہتے ہیں اہیں الہٰی نام سچ و حقیقت کی برکت و عظمت سے ہر جگہ الہٰینور بستا دکھائی دینے لگتا ہے اس لئے انہیں کوئی خوف نیہں رہتا مگریہنعمت خدا کی کرم و عنایت اورمرید مرشد ہونےس ے ملتی ہے ۔
- دنیاوی دؤلت کی محبت اور الہٰی نام سچ و حقیقت سے پیار کا آپس میںمیل نہیں ہو سکتا جس انسان کو دنیاوی عیش و عشرت سے رغبت ہوگئی۔ اسے اسی کا خیال رہتا ہے ۔مگرجس پر خدا کی کرم و عنیات ہو مرید مرشد ہوکر الہٰینام سے محبت کرتا ہے دنیاوی دؤلتاس پر اپنا تاثر نہیں ڈال سکتی ۔
- انسان کاجسم خد کا گھر اور پیراہن ہے یہ خدا کے لئے تبھی پسندیدہ ہو سکتا ہے جب یہ پاک صاف رہنے اور پہننے کے لائق ہو ۔ اسے الہٰی حمدوثناہ تب چلنی اور خوش اخلاق سے سجا دیا گیا ہو مگر انسان روحانیت پرست نیک چلن سبق مرشد اور مرید مرشد ہوکر ہی ہو سکتا ۔
- الہٰی ملاپ کا راستہ پاکدامنوں مریدان مرشد کی صحبت و قربت سے پتہ چلتا ہے اور ان کی صحبت و قربت میں رہ کر اوصاف دل میں بسانے ان پر عمل پیرا ہونے سے زندگی کی روحانی اور اخلاقی طور پر نیک چلن نبتی ہے ۔مرشد کے دیئے ہوئے سبق کی سمجھ بھی پاکدامن ساتھیوں سے آتی ہے ۔
- خداکی عبادت وریاضت کرنے والا انسان ہر دو عالموں میں شہرت پاتا ہے جس نے الہٰی نام سچ و حقیقت کا لطف لیا سکی خواہشات مٹجاتی ہے ۔مگر اس راستے پر وہی چلتا ہے جس پر الہٰی کرم وعنایت ہو۔ مرشد کا مرید ہوئے ۔
- جو انسان مرید مرشد ہوکر خدا کو یاد کرتا ہے وہ خلق خدا سے اسی طور محبت کرنے لگتا ہے جیسے دوستوں بھائیوں بیؤں سے کرتا ہے اپنا ذاتی آرام وآسائش چھور کر لوگؤں کے آرام و آسائش کے لئے کام کرتا ہے جس سے نئی روحانی زندگی ملتی ہے ۔
- بوقت اخرت الہٰی نام سچ و حقیقت ہی ساتھ دیتی ہے کوئی دنیاوی سازو سامان ساتھ ہیں دیتا ۔
- دنیاوی دولت اور دنیاوی سازوسامان اور دنیاوی کاروبار چھوڑ نا نہین بلکہ دنیاوی کاروبار کرتے ہوئے خلق خدا کی خدمت اور پاک و نیک دوسروں کی بھلائی میں زندگی گذادو ۔
- خودی مٹا کر سچ و حقیقت میں اتنا محو ومجذوب ہو جاتے ہیں کہ انہیں ہر جگہ خدا بستا دکھائی دینے لگتا ہے ۔
- خوش قسمت ہیں وہ انسان جو اپنے ارادے چھوڑکر مرشدکے بتائ ہوئے راستے پر چلتے ہے ۔ یہی طریقہ ہے دل پر عبور حاصل کرنے کا الہٰی یاد کا ۔
- جن کے دل میں سبق و واعظ مرشد گھرکر جائے مبارک ہیں وہ لوگ ان کے دیدار سے دوسرے بھی سچ و حقیقت اپناتے ہیں اور اپنے دل سے برائیاں دورکتے ہیں۔
- دولتمند ہیں وہ لوگ جو اس خدا کو یاد کرتے ہیں۔ جو پتھر سے لیکر اسمیں بستے کیڑے اور انسانوں کو رزق پہنچاتا ہے ۔
- جس انسان پر الہٰی کرم و عنیات ہو وہ مرشد کے وسیلے سے انسانی زندگی کو کامیاب بناسکتا ہے ۔ کیونکہ الہٰی پیار معاف کر دینا کے اوصاف سے اپنے آپ کو سجا لیتا ہے ۔ حقیقتاً مکمل انسان وہ ہیں جو مرشد کے وسیلے سے سانس سانس الہٰی نام سچ وحقیقت دل میں بساتے ہیں سچ وحقیقت کی دوائی سے انکے تمام روحانی واکلاقی بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں انہیں نہ سوت کا خوف نہ دنیاوی محتاجی رہتی ہے ۔
- خوش قسمت ہے وہ انسان جو مریدان مرشد کی صحبت و قربت اختیار کرتا ہے اور سچے مرشد کی بلا وہ بد گوئی نہیں کرتا کیونکہ بدگوئی کرنےسے اسکا اخلاق متاثر ہوتاہے ۔
- مرشد کے سبق پر عمل کرنے والوں کے دیدار دل میں الہٰی پیار کے لئے بلوے اورجوش و خرورش پیدا ہوتا ہے اور وہ روز و شب حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہیں۔
- الہٰی پریمیوں کی صحبت و قربت سے برائیاں ختم ہوئی ہیں ۔
- جو انسان الہٰی عاشقوں کے پرمی ہوجاتے ہیں اور ان پر اپنا اعتقاد لگاتے ہیں۔ وہ بھی اپنی زندگی کی راہیں سنوار لتیے ہیں۔ سچ اور حقیقت دل میں بسانا ہی سب سےا علے پاک زیارت ہے ۔
- نیک پارساوں خدا رسیدہ پاکدامنوں کی صحبت وقربت سے بد خواہشات اور بد اوصاف اسکے نذدیک نہیں پھٹکتے ۔
- خدا سب کی پرورش کرتا ہے مگر خوشباشی اسے عنایت کرتا ہے جو خدا سے پیارکرتے ہیں اور ان کی دنیاوی دولت کی محبت ختم کر دیتا ہے ۔
- سارے عالم پر الہٰی حمرانی ہے جو اسکے حکم کا تابعدار فرمانبردار ارضا سمجھتا اور راضی بر رضا رہتا ہے ۔ اسکی خوشنودی حاصل کر لیتا ہے جسکی سمجھ کلام مرشد سے آتی ہے ۔ وہ وصل الہٰی پا لیتا ہے ۔
سارا مدعا ومقصد
(1 تا 6) دنیا کے اس کھیل میں سب کچھ اسکی رضا ورغبت و حکمرانی سے ہو رہا ہے ۔ یہ رنگ تماشے اور تین اوصاف پر مشتمل ۔ ترقی حکرمانی ۔ سچائی اور لالچ پر مبنی دنیاوی دلوت خداکی ہی پیدا کی ہوئی ہے ۔ کیونکہ خدا کی خاص جائے سکونت اور نہ ہی کوئی شکل و صورت ہے جس سے انسان اسکی ہستی کو سمجھ سکے اس لئے دنیاوی دولت کی محب تمیں گرفتار ہوکر برائیوں میں مشغول رہتا ہے بس سے بچنے کے لئے صحبت پارسایاں خدا رسیدہ پاکدامنوں کی صحبت و قربت کلام و سبق مرشد اورمریدگئے مرشدکی ضرورت ہے ۔
(7 تا 14) مرشد کے وسیلے سے الہٰی نام سچ و حقیقت کو دل میں بسانے انسان برائیوں بدکرداریوں سے پرہیز کرنے لگتا ہے سچ و حقیقت اورخدامیں بھروسا پیدا ہوتاہے ۔ دنیاوی دولت کی محبت اسے متاثر کرنے سے قاصر ہو جاتی ہے ۔ خواہشات مٹ جاتی ہیں ۔ آبحیات نام کا لطف لینے لگتا ہے مخلوقات انسانی سے محبت اور فاقت پیدا ہوتیہے ۔ سب سے بھائیوں دوستوں اور بیٹوں کا سارشتہ پیدا ہو جاتا ہے ۔
(15 تا 23) دولت یا سرمایہ اکھٹا کرنا زندگی کا اصل مقصد نہیں بوقت آخرت یہ ساتھ نہیں جاتی مگر منع بھی نہیں اسے خلق خدا کی خدمت میں صرف کیجیئے اور اس پر فخر نہ کرو اور خودی خود پسندی ختمکرکے الہٰی رضآ میں راضی رہو اور اسکی عطاکی ہوئی نعمتوں اور اوصاف کا شکرانہ ادا کرؤ۔ ان اوصاف کو انسان مکمل انسان پرہیز گار زندگی روحانی اخلاقی طورزندگی کی کھیل جیت جاتا ہے ۔
( 24 تا 27) سبق مرشد کلام الہٰی و کلام مرشد ٹھیک اورصحیح عمل کرنے سےا ورکرنے والوں کی صحبت و قربت اختیار کنے والے بھی اس متاثر ہوکر اسے اختیار کرنے کی سعی کرنے لگتے ہیں اور الہٰی نام سچ و حقیقت کو اپنی زندگی سہارا بنا لیتے ہیں برائیوں سے پرہیز کرنے لگتے ہیں ۔
(5) کار ساز کرتار نے انسان کو اپنی زندگی گذارنے کے لئے یہ اوصول وضع کیا ہے کہ سبق مرشد کلام الہٰی وصحبت و قربت پاکدامناں خدا رسید گان میں الہٰی رضا میں راجی رہ کر الہٰی اوصاف اور اسکی دی ہوئی نعمتوں کا شکرایہ ادا کرتار ہو۔
اصل مدعا :
خدا کی بتائی تینوں اوصاف پر مشتمل دنیاوی دولت ان کو متاثر کرکے گمراہ کرتی ہے ۔ مگر جو انسان سبق مرشد وکلام مرشد عمل کرکے پرہیز گاری اختیار کریں گے ۔ ان پر اس دنیاوی دؤلت اپنا اثر نہ ڈال سکے گی ۔
ਮਃ ੪ ॥ ਸੋਰਠਿ ਤਾਮਿ ਸੁਹਾਵਣੀ ਜਾ ਹਰਿ ਨਾਮੁ ਢੰਢੋਲੇ ॥ ਗੁਰ ਪੁਰਖੁ ਮਨਾਵੈ
ਆਪਣਾ ਗੁਰਮਤੀ ਹਰਿ ਹਰਿ ਬੋਲੇ ॥
مਃ੪॥
سورٹھِ تامِ سُہاۄنھیِ جا ہرِ نامُ ڈھنّڈھولے ॥
گُر پُرکھُ مناۄےَ آپنھا گُرمتیِ ہرِ ہرِ بولے ॥
ترجمہ:
موسیقی کی پیمائش سورتھ صرف اس وقت خوبصورت ہوتی ہے جب وہ روح دلہن کو خدا کا نام تلاش کرنے کی طرف لے جاتی ہے۔
وہ اپنے شوہر خدا کو راضی کرتی ہے اور گرو کی تعلیمات کے ذریعے اس پر غور کرتی ہے۔
ਹਰਿ ਪ੍ਰੇਮਿ ਕਸਾਈ ਦਿਨਸੁ ਰਾਤਿ ਹਰਿ ਰਤੀ ਹਰਿ ਰੰਗਿ ਚੋਲੇ ॥ ਹਰਿ ਜੈਸਾ
ਪੁਰਖੁ ਨ ਲਭਈ ਸਭੁ ਦੇਖਿਆ ਜਗਤੁ ਮੈ ਟੋਲੇ ॥
ہرِ پ٘ریمِ کسائیِ دِنسُ راتِ ہرِ رتیِ ہرِ رنّگِ چولے ॥
ہرِ جیَسا پُرکھُ ن لبھئیِ سبھُ دیکھِیا جگتُ مےَ ٹولے ॥
ترجمہ:
دن اور رات ، خدا کی محبت سے متوجہ ، وہ اس کی محبت سے متاثر رہتی ہے۔
میں نے پوری دنیا کو تلاش کیا ، لیکن مجھے خدا جیسا کوئی نہیں ملا۔
ਗੁਰਿ ਸਤਿਗੁਰਿ ਨਾਮੁ ਦ੍ਰਿੜਾਇਆ ਮਨੁ ਅਨਤ ਨ ਕਾਹੂ
ਡੋਲੇ ॥ ਜਨੁ ਨਾਨਕੁ ਹਰਿ ਕਾ ਦਾਸੁ ਹੈ ਗੁਰ ਸਤਿਗੁਰ ਕੇ ਗੋਲ ਗੋਲੇ ॥੨॥
گُرِ ستِگُرِ نامُ د٘رِڑائِیا منُ انت ن کاہوُ ڈولے ॥
جنُ نانک ہرِ کا داسُ ہےَ گُر ستِگُر کے گول گولے ॥੨॥
لفظی معنی:
نام۔ تب۔ ہر نام۔ الہٰی نام۔ سچ و حقیقت۔ ڈھنڈوے ۔ تلاش کرتے ۔ گرمتی ۔ سبق و واعظ مرشد سے ۔ گر پرکھ ۔ با توفیق مرشد۔ ہرہر لوے ۔ خود خدا کہتا ہے ۔ تو نے تلاش کرکے ۔ درڑائیا۔ پکا کیا۔ انت نہ کاہو ڈوے ۔ آکرت کہیں ڈگمگاتا نہیں۔ ہر کاداس ۔ خادم خدا۔ گول گوے ۔ غلاموں کے غلام۔ خادموں کے خادم ۔
ترجمہ:
سچے گرو نے میرے اندر نام لگادیا ہے اور اب میرا ذہن کبھی دوسرے کی محبت کے لیے نہیں ڈگمگاتا۔
خدا کا بھکت نانک سچے گرو کے پیروکاروں کا ایک عاجز بندہ ہے۔ || 2 ||
ਪਉੜੀ ॥ ਤੂ ਆਪੇ ਸਿਸਟਿ ਕਰਤਾ
ਸਿਰਜਣਹਾਰਿਆ ॥ ਤੁਧੁ ਆਪੇ ਖੇਲੁ ਰਚਾਇ ਤੁਧੁ ਆਪਿ ਸਵਾਰਿਆ ॥
پئُڑیِ ॥
توُ آپے سِسٹِ کرتا سِرجنھہارِیا ॥
تُدھُ آپے کھیلُ رچاءِ تُدھُ آپِ سۄارِیا ॥
ترجمہ:
اے خالق ، تم خود اس کائنات کے خالق ہو۔
آپ نے خود دنیاوی کھیل قائم کیا ہے ، اور آپ نے خود اس کو سجایا ہے۔
ਦਾਤਾ ਕਰਤਾ ਆਪਿ ਆਪਿ ਭੋਗਣਹਾਰਿਆ
॥ ਸਭੁ ਤੇਰਾ ਸਬਦੁ ਵਰਤੈ ਉਪਾਵਣਹਾਰਿਆ ॥
داتا کرتا آپِ آپِ بھوگنھہارِیا ॥
سبھُ تیرا سبدُ ۄرتےَ اُپاۄنھہارِیا ॥
ترجمہ:
آپ خود ہی نعمتوں کے محافظ ہیں اور آپ خود ان سے لطف اندوز ہونے والے ہیں۔
اے خالق ، تیرا حکم ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔
ਹਉ ਗੁਰਮੁਖਿ ਸਦਾ ਸਲਾਹੀ ਗੁਰ ਕਉ ਵਾਰਿਆ ॥੧॥
ہءُ گُرمُکھِ سدا سلاہیِ گُر کءُ ۄارِیا ॥੧॥
لفظی معنی:
سسٹ کرتا۔ دنیا پیدا کرنے والا۔ سر جنہاریا۔ پیدا کرنے والے ۔ کھیل رچائے ۔ دنیا کو کھیل بنائیا۔ سواریا۔ درست کیا۔ سبد۔ کلام ۔ فرمان۔ اپاونہاریا۔ پیدا کرنے والے ۔ داتا۔ دینے والا ۔ کرتا ۔ کرنے والا۔ بھوگنہاریا۔ زیر تصرف لانے والا۔ گورمکھ ۔ مرشد کے وسیلے سے ۔ واریا۔ قربان۔
ترجمہ:
میں اپنے گرو کے لیے وقف ہوں اور ان کی تعلیمات کے ذریعے میں ہمیشہ آپ کی تعریف کرتا ہوں۔ || 1 ||